کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 230
شیئا اللّٰه ‘‘ پڑھنا جائز ہے؟ انہوں نے کہا مولوی رشید احمد گنگوہی کے دو قول ہیں، بعض جائز سمجھتے ہیں اور بعض ناجائز، مولوی نجم الدین نے کہا مولوی صاحب! ہم نے یہاں شرک اکھاڑنے میں سخت محنت کی تھی، آپ نے ایک لفظ میں ساری محنت و کاوش پر پانی پھیر دیا ، یہ آپ نے کیا کیا؟ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ اس قسم کی باتوں سے کم علم اور باطل عوام دلیل پکڑتے ہیں کہ چلو مولوی اشرف علی نے خواص کے لیے جائز کہہ دیا ہے، بس ٹھیک ہے، دیوبندی مکتب فکر کے عالم فاضل آدمی ہیں، غلط تھوڑا کہا ہے! لہٰذا ہر شخص خواص کو آواز دے سکتا ہے اور ان کے زمرہ میں داخل ہو سکتا ہے، کیونکہ خواص وہی تو ہیں جنہیں نظر آجائے اور تعلق پیدا ہوجائے، اس کے وہ سامنے ہے، اس کا سینہ کھل گیا، کیسی فضول اور نا معقول بات ہے، ابلیس کو پکارو تو اسی وقت سینہ کھل جائے گا اور چودہ طبق روشن ہوجائیں گے! پیر یعقوب کا واقعہ: مریدکے میں ایک پیر یعقوب تھے، کسی آدمی نے ان سے کہا کہ ایک آدمی میرا مخالف ہے، مجھ سے بڑی دشمنی رکھتاہے اور بہت تنگ کرتا ہے، مجھے کوئی وظیفہ بتاؤ کہ وہ تنگ کرنے سے باز آجائے، پیر یعقوب نے کہا سورۂ ناس پانچ سو مرتبہ پڑھ کر ’’ أیھا الوسواس الخناس ‘‘ کو بلا کر کہو: ’’ اذھبوا إلیٰ فلان بالسیوف والحراب واذکروا عندہ اسمي وکنیتي‘‘ اس نے اسی طرح پڑھا، شیطان اسی وقت اس کے دشمن کے گھر چلا گیا، اسے بڑا ڈرایا، گویا کوئی اسے مارنے آیا ہے، اس نے بھیجنے والے کا نام بھی بتایا تھا، اس لئے وہ صبح سویرے آیا کہ مجھے معاف کر دو، آج کے بعد میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا، دیکھا شیطان کو اس نے مدد کے لیے پکارا، تو کتنی جلدی مدد کو پہنچا اور کام کر دیا، یا ابلیس کہو،