کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 225
کہتے کہ حضور دعا کریں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حدیث میں یہ نہیں بتایا کہ فوت ہونے کے بعد میری قبر پر آنا اور دعا کرنا اور نہ صحابۂ کرام نے ایسا کام کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان خواہ اس کا کتنا بلند اور بڑا مقام کیوں نہ ہو، وہ جو کام کرتا ہے، بحکم تفویض ہی کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کے لیے استغفار: کہا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے استغفار کرتے ہیں یا سلام پڑھا جائے تو اس کا جواب دیتے ہیں،[1] یہ ایک قسم کی دعا ہے، اس قسم کی چیزیں تو ثابت ہیں، باقی اس سے زیادہ کہ آپ سے مدد لی جائے اور آپ ہمارے لئے دعا کریں، اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں آیا، ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیز جائز نہیں، صحیح بات تو یہی ہے، جیسا کہ ابن تیمیہ وغیرہ کا خیال ہے کہ قبر پر جاکر درخواست کرنا درست نہیں، مگر اسے انہوں نے شرک قرار نہیں دیا، صرف یہ کہتے ہیں کہ اس کا ثبوت نہیں ہے۔ [2] جن اور ملائکہ سے مدد مانگنا: یہ مسئلہ ضمناً بیان کر دیا گیا ہے، ورنہ بات یہ چل رہی تھی کہ فرشتوں میں قدرت تو ہے، اس کے باوجود ان سے مدد اس لئے نہیں لی جا سکتی کہ ان کے اعمال بحکم تفویض ہیں، بحکم تکلیف نہیں کہ ان کو تکلیف دی گئی ہو کہ لوگوں کی مدد کرو۔ باقی جن رہ جاتے ہیں، بعض ایسے امور میں جن انسان کی مدد کر سکتے ہیں،
[1] استغفار کرنے کا کوئی ثبوت نہیں، البتہ سلام کا جواب دینے کا ذکر بعض احادیث میں موجود ہے، دیکھیں: سنن أبي داود، برقم (۲۰۴۱) [2] لیکن قبر پر جا کر صاحب قبر سے استغاثہ کیا جائے گا، یا اس عقیدے کے تحت دعا کی جائے گی کہ صاحبِ قبر ہماری دعا سن رہا ہے، یا وہ دلوں کے حال سے واقف ہے اور وہ اﷲ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کرے گا، یہ دونوں صورتیں شرک ہیں۔ أعاذنا اﷲ منھا (ناشر)