کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 205
ایک احسان کیا ہے، میں نے اس کا بدلہ اب تک نہیں دیا، بدلہ دے چکا ہوتا، تو آج میں جواب دیتا۔[1] باوجود کافر ہونے کے اخلاقی رنگ میں یہ خیال آیا کہ اس کے احسان کا بدلہ چکا لوں، پھر جواب دوں گا، اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اخلاقی لحاظ سے بڑے بلند تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا بلند تر درجہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اس میدان میں سب سے بلند حصہ رکھتا تھا، ان کا حافظہ بھی نہایت اچھا تھا، ذہین تھے، شجاع تھے، بقول ابن تیمیہ یہ اوصاف اور امتیازات بنو ہاشم میں دوسرے قبائل سے زیادہ تھے، یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ذو نسب‘‘ اس معنی سے کہا گیا ہے، خواہ خاندان کے اسلاف کافر ہوں یا مسلمان، اس سے بحث نہیں۔ ہرقل کا دوسرا سوال: ’’ قال: فھل قال ھذا القول منکم أحد قط قبلہ؟ ‘‘ کیا یہ بات تم میں سے پہلے بھی کبھی کسی نے کہی ہے؟ ابو سفیان کہتے ہیں، میں نے نفی میں جواب دیا، ہر قل نے یہ بات اس لئے پوچھی کہ اگر کسی نے ان کے خاندان میں سے پہلے اس قسم کا دعویٰ کیا ہوگا، تو پھر تو دوسری صورت ہوگی، اس کی صورت اسی طرح کی ہوگی کہ شریر آدمی میں آسانی سے شرافت پیدا نہیں ہو سکتی، جس طرح قاعدہ ہے کہ سفید رنگ والے آدمی کے ہاں سفید رنگ کے بچے ہی پیدا ہوں گے، سیاہ ہو تو سیاہ پیدا ہوں گے، رنگ، خدوخال، قدو قامت عموماً بچہ والدین سے لے کر آتا ہے، اسی طرح ان
[1] صحیح البخاري: کتاب الشروط، باب الشروط في الجھاد والمصالحۃ مع أھل الحرب وکتابۃ الشروط، رقم الحدیث (۲۵۸۱)