کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 186
ہیں؟ آخر ایک جماعت مکہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئی، جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مٹھی بھر صحابہ کے ساتھ تشریف فرما ہیں اور قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں، قرآن کی تلاوت کی آواز جنوں نے سنی، تو جن وہاں ٹھہر گئے کہ یہ تو وہی کلام اور وہی تاثیر ہے، جو اﷲ کے پیغمبر موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں تاثیر تھی، وہی لذت، وہی استمتاع اور وہی مزا آرہا ہے، اس کلام کو سننے کے لیے وہ ٹھہر گئے، انہوں نے اس کلام کو سنا اور ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہوگیا، انہوں نے وہیں اسلام قبول کر لیا: { بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا ﴿١﴾} [الجن: 1] جن کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب اﷲ کا کلام سنا، جو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے، ہم اس پر ایمان لے آئے، ہم نے توحید قبول کر لی اور شرک سے توبہ کر لی، یہ مٹھی بھر جماعت متحیر اور پریشان تھی۔ ان تک بھی حق پہنچ گیا، تو اﷲ کی حجت ہر شخص پر قائم ہوچکی ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی ایک ایک زبان پر اس پیغمبر کی بعثت کی خبر ہے، اب کیا معاملہ ہے؟ معاملہ یہی ہے کہ اس پیغمبر کی اتباع کر لو۔ سارے راستے بند ہو چکے ہیں، جادو ٹوٹ چکا، کہانتیں ختم ہو چکیں، شیاطین کی کرسیاں توڑ دی گئیں، آسمانوں کی خبروں کے سارے ذرائع بند ہو چکے ہیں، اب ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ اﷲ کی وحی کا ذریعہ ہے اور وہ وحی اس پوری کائنات میں ایک ہی شخصیت پر اترے گی، جس کا نام نامی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ 5۔ اب پوری کائنات کو اسی کی غلامی کرنی ہے، نمازیں پڑھنی ہے، اسی کے طریقے کے مطابق پڑھنی ہیں، ساری زندگی اور سارے امور اسی شخصیت کے طور