کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 165
تقلید شخصی شرک ہے: اسی معنی میں کہتے ہیں کہ تقلید شخصی شرک ہے، کیونکہ تقلید کا معنی ہے ’’ أخذ قول الغیر بلا حجۃ ‘‘[1]کسی غیر کی بات کو بغیر کسی دلیل کے ماننا، دلیل کا مطالبہ نہیں کرنا، یہ نہیں کہنا کہ کتاب و سنت کی روشنی میں بات کرو، نہیں، تم ہمارے امام ہو، ہمارے رہبر ہو، بس آپ فرما دیں کہ اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ دلیل نہیں پیش کرنی، بلکہ بعض اوقات فتویٰ دینے والے مفتی حضرات سائل کو ڈانٹتے ہیں کہ تم نے اپنے سوال میں یہ شرط کیوں لگائی کہ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دو؟ کہتے ہیں کہ کیا یہ کافی نہیں ہیں کہ ہم مقلد ہیں؟ ہمارے لئے قولِ امام کافی ہے، قرآن و حدیث کی دلیل کے مطالبے کا کیا معنی ؟ یہی شرک ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاکہ تم نے بلا طلب دلیل ان کے حلال کو حلال مانا اور ان کے حرام کو حرام مانا تھا، یہی تو ان کی عبادت ہے، تو فرمایا: { وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ } کہ ہم سے کوئی کسی دوسرے کو اپنا رب مانے، نہ اس کا پیرو کار بنے، ایسا نہ ہو اﷲ تعالیٰ کی وحی کو چھوڑ کر اس کا فرمانبردار بن جائے، یعنی یہ وہ بات ہے، جو قرآن، تورات و انجیل کی دعوت کے درمیان قدر مشترک ہے۔ توحید ہر نبی کی بنیادی دعوت ہے: یعنی توحید خالص کی دعوت دینا، بلکہ یہ دعوت تو ہر نبی کی دعوت تھی، قرآن کہتا ہے: { وَسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ آلِھَۃً یُّعْبَدُوْنَ} [الزخرف: 45]
[1] إرشاد الفحول (2/239)