کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 140
1۔ { فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ ﴿٥﴾ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ﴿٦﴾} [الحاقۃ: 5،6] فرمایا کہ قوم ثمود اتنی بڑی طاقت تھی، ہم نے اپنی افواج میں سے ایک ہی فوج ایک ہی کڑک کو مسلط کر کے پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیا، ایک ہی جھٹکے میں اتنی بڑی قوم بربادی کا شکار ہوگئی، جب وقت آگیا، تو یہ کڑک اور چیخ اﷲ کے سپاہی بن گئے اور عالم کفر پر یلغار بن گئے۔ {وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ﴿٦﴾} اور قوم عاد کو ہم نے کچھ جھٹکے دئیے اور ایک آندھی مسلط کر دی، جس نے ان کو بار بار پٹخا، تہہ و بالا کیا اور سات آٹھ دن راتیں یہ آندھی طاری رہی اور پھر اس قوم کے بڑے بڑے جسم کھجوروں کے تنوں کی مانند میدان میں بکھرے ہوئے تھے، یہ آندھی اﷲ کی فوج ہے۔ 3۔ جنگ احزاب میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’نصرت بالصبا، وأھلکت عاد بالدبور‘‘[1]اﷲ نے میری مدد کی صبا کے ساتھ اور عاد کو ہلاک کیا دبور کے ساتھ۔ ’’صبا‘‘ ایک ہوا تھی، مشرق سے مغرب کی سمت چلی اور اس نے قومِ کفار کے خیموں کو اکھاڑ دیا، ان کے ایک ایک سپاہی کی آنکھیں مٹی سے بھر گئیں، یہ چھوٹے چھوٹے ذرے اﷲ کے سپاہی بن گئے اور قوم عاد کو ’’دبور‘‘ سے ہلاک کیا، وہ ہوا مغرب سے مشرق کی سمت اٹھی اور اس قوم کو تہس نہس کر دیا، اﷲ رب العزت کسی وسیلے اور کسی سہارے کا محتاج نہیں، فرمایا: { وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ } [المدثر: 31]
[1] صحیح البخاري: کتاب الاستسقائ، باب قول النبي صلی اﷲ علیہ وسلم: نصرت بالصبا، رقم الحدیث (988) صحیح مسلم: کتاب صلاۃ الاستسقائ، باب في ریح الصبا والدبور، رقم الحدیث (900)