کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 124
وہ قبول تو کریں گے، لیکن ان کو اس دین اور توحید کا فہم و شعور حاصل نہیں ہوگا، تو پھر لا محالہ ان کا عقیدہ، ان کی توحید، ان کا ایمان سب مسترد ہے، قابل قبول نہیں۔ کلمے کے دو معانی: مشرکین مکہ اس کلمے کو دونوں معانی کے ساتھ سمجھتے تھے، معنیٔ نفی اور معنیٔ اثبات، معنیٔ اثبات یہ ہے کہ صرف ایک اﷲ معبود ہے، اس کی توحید ثابت اور قائم ہے اور معنیٔ نفی یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ، کوئی معبود نہیں، صرف ایک اﷲ ہی معبود برحق ہے، اﷲ تعالیٰ نے اپنی توحید کی بات جہاں بھی کی، ان دونوں معانی کے ساتھ نفیاً و اثباتاً کی ہے، فرمایا: { لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِا للّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللّٰهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٥٦﴾} [ البقرہ: 256] جو طاغوت کا انکار کرے گا اور ایک اﷲ پر ایمان لائے گا، نفی کیا ہے؟ ہر طاغوت کا انکار نفی ہے، جتنی سرکاریں لوگوں نے بنا رکھی ہیں، ان سب کا انکار اور سب کی نفی کرنا، { وَ یُؤْمِنْمبِاللّٰہِ} ایک اﷲ پر ایمان لے آئے اور اس کی توحید کو مان لے، { فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ } اس نے ایک مضبوط سہارے کو تھام لیا، ایسا مضبوط سہارا کہ جو کبھی ٹوٹے گا ہی نہیں، وہ بہت مضبوط پناہ میں آگیا اور ایک بڑے محفوظ قلعے میں آگیا، اسے کوئی نقصان نہیں دے سکتا، کیونکہ اﷲ اس کے ساتھ ہے، اس کا منہج صحیح ہوگیا، اس کا عقیدہ صحیح ہوگیا، جب یہاں مکمل درستگی ہو گی، تو اﷲ ساتھ ہے، پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کو نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ کلمے کا فہم: تو اس کلمے کا یہ فہم ابو سفیان کو حاصل تھا کہ ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول