کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 122
جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز کیا، تو فرمایا: ’’ أیھا الناس! قولوا لا إلہ إلا اللّٰہ تفلحوا‘‘ [1] اے لوگو! لا إلہ إلا اﷲ کہہ دو۔ یہ دعوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار دی، ابوسفیان اور اس کی قوم اس دعوت سے کیاسمجھی؟ ابو سفیان وہی جواب دے رہا ہے کہ اس نبی کی دعوت اور اس کا امر کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ’’ یقول: اعبدوا اللّٰہ وحدہ، ولا تشرکوا بہ شیئاً، واترکوا ما یقول آباؤکم ‘‘ اس مشرک نے اس دعوت کو کیا سمجھا؟ وہ بتا رہا ہے کہ اس نبی کی دعوت یہ ہے کہ صرف ایک اﷲ کی عبادت کرو، اتنا ہی سمجھا؟ نہیں، ’’ولا تشرکوا بہ شیئا ‘‘ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اتنا ہی سمجھا؟ نہیں، ’’واترکوا ما یقول آباؤکم‘‘ اور تمہارے بزرگ اور تمہارے باپ داد، تمہاری قومیں، برادریاں، جو کچھ تم کو حکم دیتیں ہیں، سب کو چھوڑ دو۔ یہ اس نبی کی دعوت ہے، جس کا کلمہ ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ ‘‘ ہے، یہ ایک مشرک کا فہم ہے، ابو سفیان نے اس کلمے سے یہ معنی سمجھا کہ ایک اﷲ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نہ کسی درگاہ کو، نہ کسی زندہ کو، نہ کسی مردہ کو، نہ کسی حجر کو، نہ کسی شجر کو، نہ کسی جن کو، نہ کسی فرشتے کو، نہ کسی نبی مرسل کو، کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اس طرح اس کے حکم کو قبول کر لو، اس طرح جڑ جاؤ، مان لو کہ ’’واترکوا ما یقول آباؤکم ‘‘ اپنے آباء و اجداد اور بزرگوں، قوموں اور برادریوں کی اطاعت کو بھی چھوڑ دو، صرف اسی کا سکہ چلے گا، اسی کا حکم چلے گا، یہ ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ ‘‘ کا فہم ابو سفیان کو حاصل ہوا۔
[1] مسند أحمد (3/492) وقال الألباني: ’’ أحد إسنادي أحمد صحیح ‘‘ (دفاع عن الحدیث النبوي: 22)