کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 117
اپنے مرض کی شفا کے متعلق تمہارے اندر ہے، وہ کسی دوسرے کے اندر نہیں، اور پھر خاص طور پر وہ شعبدہ باز اور وہ بہروپیے جن کی نگاہ تمہاری جیبوں پر ہوتی ہے، وہ تمہارے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ وہ تو دم کر کے، پھونکیں مار کے اور تمہارے نام کے استخارے کر کے اپنے پیسے کھرے کر لیں گے اور تمہیں گناہوں کی دلدل میں دھکیل دیں گے، جو اخلاص تمہارے اندر موجود ہے، وہ ان کے اندر موجود نہیں، تو صبر علی أقدار اﷲ کا معنی یہ ہے کہ شریعت کے دامن کو تھامے رکھو ۔ انجام کار انبیاء کو کامرانی ملتی ہے: ہرقل کہتا ہے: یہ سخت ترین تکلیفیں نبیوں پر آتی ہیں، نبی جھنجھوڑے جاتے ہیں: ’’ ثم تکون لھم العاقبۃ ‘‘ پھر بالآخر اﷲ رب العزت ان کے صبر کو دیکھ کر انجام کار ان کے حق میں کر دیتا ہے ، ان کے لیے بہتری کے فیصلے فرما دیتا ہے، دنیا میں کامیابی کی صورت میں اور آخرت میں درجات علیٰ کی صورت میں! صبر کا مقام: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک شخص کے لیے اﷲ تعالیٰ نے جنت میں بڑا اونچا مقام رکھا ہوتا ہے، لیکن اس کے عمل قاصر ہیں، اس کے عمل چھوٹے ہیں اور درجہ اونچا ہے، تو اﷲ تعالیٰ اس شخص کو کسی تکلیف میں ڈال دیتا ہے، اس پر کوئی مرض اتار دیتا ہے اور اس کو صبر کی توفیق دے دیتا ہے، وہ اتنا صبر کرتا ہے، اتنا جھیلتا ہے، اتنا برداشت کرتا ہے کہ وہ اس درجہ علیٰ کے قابل بن جاتا ہے، اس مقام عالی کا مستحق بن جاتا ہے، جو اﷲ نے اس کے لیے تیار کیا ہے۔ تمحیص: تو یہ معاملہ دین اسلام کی فطرت ہے کہ اﷲ تعالیٰ آزماتا ہے، اس میں ایک پہلو تمحیص اور تمیز کا ہے اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اسلام کی صفوں میں نکھار پیدا کرنا چاہتا ہے، جب اﷲ تعالیٰ نے جنگ احد میں صحابہ کو زخم دیئے، خود اپنے پیارے پیغمبر کو زخم دیئے، تو منافقین جنگ بدر کے نتیجے سے سمجھے ہوئے تھے کہ یہاں فتح ہی فتح ہے