کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 111
میں کوئی طاقت نہیں، اگر تمہارا ایمان پختہ ہو اور تمہارا ایمان پکا ہو، تو ان کی ظاہری چمک دمک اور ہتھیار سب بیکار ہیں۔ دعوت میں استقامت: جناب محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آزمائشیں آئی تھیں، یعنی مکہ کی پوری زندگی کتنا مسلسل صدمات سے دوچار رہی، آپ کا یہ دور کیسے گزرا، یہ دعوت ایمانی کا امتحان تھا، سجدے کی حالت میں اوجھڑی پھینکی گئی ،[1] آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، گڑھے کھودے گئے اور مختلف اتہامات دئیے گئے، مجنون اور دیوانہ کہا گیا، ساحر، کاذب اور شاعر کہا گیا، پھر آپ کے سامنے آپ کے ساتھیوں کو شہید کیا گیا، آپ کی بیٹی کو شہید کیا گیا، بلال حبشی کو گرم انگاروں پر گھسیٹا گیا اور خاندان یاسر پر کھولتا ہوا پانی ڈالا گیا، ان پر، ان کے بیٹے عمار اور ان کی بیوی سمیہ پر آپ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں: ’’صبراً یا آل یاسر فإن موعدکم الجنۃ ‘‘[2] خاندان یاسر! صبر سے کام لو، اگر آج صبر میں تم کامیاب ہوگئے، تو میری تمہاری ملاقات جنت میں ہوگی۔ تو انبیاء جھنجھوڑے جاتے ہیں، انبیاء آزمائے جاتے ہیں، ہرقل کی یہ تشخیص اور تبصرہ بالکل برمحل ہے، اس کو بڑا شعور اور بڑی معرفت ہے، چنانچہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تیرہ سالہ مکی زندگی دعوت کے میدان میں تکلیفوں سے عبارت ہے، صدمے جھیلے ، فاقے برداشت کئے اور فقر برداشت کیا، حتی کہ مدینے آگئے، ایک الگ شہر مل گیا، ہجرت کر لی اور یہ بھی ایک تکلیف ہے۔
[1] صحیح البخاري: أبواب الجزیۃ والموادعۃ، باب طرح جیف المشرکین في البئر ولا یؤخذ لھم ثمن، رقم الحدیث (3024) صحیح مسلم: کتاب الجھاد والسیر، باب ما لقي النبي صلی اﷲ علیہ وسلم من أذی المشرکین والمنافقین، رقم الحدیث (1794) [2] المستدرک للحاکم (3/432) شعب الإیمان للبیھقي (2/239) وقال الحاکم: صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ وقال الذھبي: علی شرط مسلم، وقال الألباني: ’’حسن صحیح ‘‘ (فقہ السیرۃ: 103)