کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 109
اور کوئی مدد گار نہیں، اب تو وہ ہاتھوں میں پتھر لئے کھڑے ہیں اور کچھ بھی سلوک کر سکتے ہیں۔ اس وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطعم بن عدی، جس میں کچھ خیر کے آثار تھے، جس میں کچھ سنجیدگی اور متانت تھی، کے پاس اپنے غلام کو بھیجا اور کہا کہ مطعم سے کہو کہ مجھے کفار کے برے سلوک کا خطرہ ہے، کیا تم مجھے اپنی امان دے سکتے ہو؟ میں چاہتا ہوں تمہاری امان میں مکہ میں داخل ہوں، تاکہ کوئی مجھے گزند نہ پہنچائے اور کوئی مجھے تکلیف نہ دے؟ مطعم بن عدی امان دینے پر تیار ہوگیا، اس نے اپنے جوانوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھما دیں اور کہا کہ بیت اﷲ کے ایک ایک کونے میں کھڑے ہوجاؤ اور کسی نے بھی پتھر پھینکنے کی کوشش کی، یا کوئی تکلیف دینے کی کوشش کی، یا کوئی طعنہ زنی کی کوشش کی، تو تم نے اپنی تلواریں لے کر باہر آجانا ہے اور اپنی جان قربان کر دینی ہے، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے۔[1] تو انبیاء کی تاریخ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں یہ بڑا مھیب اور بڑا خطرناک دن تھا، فرمایا کہ یہ دن سب سے سخت تھا، اس لئے جہاد کی بہ نسبت دعوت کے میدان زیادہ سخت اور خطرناک ہوتے ہیں، جنگ احد ایک جہادی میدان تھا اور طائف ایک دعوتی میدان تھا، فرمایا کہ یہ دن زیادہ سخت ہے، حالانکہ احد میں ستر صحابہ شہید ہوئے ، لیکن یہ دن آگے چل کر بڑے واقعات پر مترتب ہوا اور اس کے بڑے آثار ظاہر ہوئے، تو اس طرح آپ بوجھل قدموں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے ۔ مطعم بن عدی کے احسان کا بدلہ: جب جنگ بدر ہوئی اور کفار قریش ستّر قتل ہوئے اور ستّر قید ہوئے، تو ان کے بارے میں مشاورت ہو رہی ہے کہ قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کریں؟ کسی نے کہا کہ
[1] دیکھیں: فتح الباري (7/ 324)