کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 98
میں وہ قرآنِ مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ سورۃ القمر کی جب یہ آیت تلاوت کی: ﴿إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ (54) فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ ﴾ [القمر: ۵۴۔ ۵۵] بے شک متقین باغوں اور نہروں میں ہوں گے، صدق کی مجلس میں، عظیم بادشاہ کے پاس جو بے حد قدرت والا ہے۔‘‘ تو جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔[1] اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار اور خوش حالی میں اس کا ذاکر و شاکر رہنے والا ہی اللہ کی رحمت کا امیدوار ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر بن عیاش، جن کا شمار امام سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمان بن مہدی جیسے اعیان کے اساتذہ میں ہوتا ہے، فوت ہونے لگے تو حاضرین آبدیدہ ہو گئے، فرمانے لگے: رونا نہیں میں نے اس کونے میں ۱۸ ہزار مرتبہ قرآن مجید ختم کیا ہے۔[2] ابو عبدالرحمان السلمی نے اپنی بیماری کے ایام میں فرمایا: میں اللہ پر امید کیوں نہ رکھوں کہ میں نے اس کی اطاعت میں اسی رمضان کے روزے رکھے ہیں۔ ہمارے اسلاف اس بات کی تمنا کرتے تھے کہ ہمیں حج کے بعد یا رمضان کے بعد یا کسی اور نیک عمل کے بعد موت آئے جو ہمارے حسن خاتمہ کا باعث بنے۔ غرض یہ کہ خوشیوں میں کی گئیں یہی حسنات اور اللہ تعالیٰ کی طاعات ہی انسان کی دنیوی اور اس کے بعد کی تمام مشکلات میں، وہ موت کی ہوں، قبر کی ہوں یا آخرت کی، اللہ کی مدد و نصرت اور اللہ کی معرفت و معیت کا باعث ہوتی ہیں اور جو اس سعادت سے محروم ہے اس کے لیے ہر مقام پر مشکلات ہی مشکلات ہیں۔
[1] الرد الوافر. [2] السیر (۸/ ۵۰۴).