کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 97
سے سانس لے رہا ہوں اور کانٹے میرے قدم سے دماغ تک جذب ہو رہے ہیں۔[1] موت کی اس شدت سے بچانے اور اس کے احساس کو کم کرنے کے لیے یہی اللہ کی بندگی و اطاعت ہی راہ گیر ثابت ہوتی ہے، موت کے فرشتے آتے ہیں اسے سلام کہتے ہیں۔[2] خوب صورت روشن چہرے والے ہوتے ہیں ان کے ہاتھوں میں جنتی کفن اور جنتی خوش بو ہوتی ہے، پھر ملک الموت آتا ہے اورکہتا ہے: ’’أیتہا النفس الطیبۃ أخرجي إلی مغفرۃ من اللّٰہ و رضوان‘‘ اے پاک روح نکل اور اللہ کی مغفرت اور رضا کی طرف چل۔ چنانچہ جسم سے روح اس طرح نکل آتی ہے جیسے مشک سے پانی بہہ نکلتا ہے۔[3] اسی حوالے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے بارے میں مذکور ہے کہ جب ان کا انتقال ہونے لگا تو انھوں نے صاحبزادوں سے فرمایا: میرے گرد سے ہٹ جاؤ، میں ظاہر میں تمھارے ساتھ ہوں لیکن باطن میں دوسروں کے ساتھ ہوں، میرے پاس تمھارے سوا اور لوگ ہیں ان کے لیے جگہ خالی کر دو اور ان کا ادب کرو۔ آپ بار بار فرماتے تھے تم پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔ صاحبزادے عبدالجبار نے پوچھا: آپ کے جسم میں کہاں تکلیف ہے؟ فرمایا: میرے کل اعضاء مجھے تکلیف دے رہے ہیں مگر میرے دل کو کوئی تکلیف نہیں وہ اللہ کے ساتھ صحیح ہے۔[4] شیخ الاسلام امام بن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ بیماری کے آخری ایام
[1] التذکرۃ للقرطبي (ص: ۳۰). [2] سورۃ النحل [آیت: ۳۲]. [3] مسند الإمام أحمد (۴/ ۲۸۸). [4] تکملۃ في ذکر وصایا مع فتوح الغیب (ص: ۱۷۷۔ ۱۷۸).