کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 94
ہے اور خوشی و غمی میں اللہ سے جڑا رہتا ہے مگر مشرک مطلب پرست ہوتا ہے وہ مشکلات میں تو اللہ کو یاد کرتا اور اسے پکارتا ہے مگر خوشیوں میں اسے بھول جاتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ للّٰه أَنْدَادًا لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِهِ ﴾ [الزمر: ۸] ’’اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے، اس حال میں کہ اس کی طرف رجوع کرنے والا ہوتا ہے، پھر جب وہ اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کرتا ہے تو وہ اس کو بھول جاتا ہے جس کی جانب وہ اس سے پہلے پکارا کرتا تھا اور اللہ کے لیے کئی شریک بنا لیتا ہے تاکہ اس کے راستے سے گمراہ کر دے۔‘‘ ﴿الْإِنْسَانَ ﴾ اگرچہ تمام انسانوں کو شامل ہے کیوں کہ الف لام استغراق کے لیے ہوتا ہے مگر یہ کبھی عہد ذہنی کے لیے بھی ہوتا ہے۔ سورۃ الزمر کا سابقہ سیاق بھی اسی کا مؤید ہے کہ یہاں انسان سے مراد وہ انسان ہیں جن کا پہلے ذکر ہو رہا ہے اور بڑے شد و مد سے جن کی تردید کی جا رہی ہے اور انھی کے عمل و کردار کا اس آیت میں بیان ہے۔ مصائب میں خالص اللہ کو پکارنا اور مصیبت دور ہو جانے کے بعد اللہ کی بجائے دوسرے معبودوں کو پکارنا مشرکوں کا عام وتیرہ رہا ہے جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر کی ہے، ملاحظہ ہو: سورت یونس (آیت: ۱۲)، العنکبوت (آیت: ۶۵)، لقمان (آیت: ۳۲) مگر اس کے ساتھ ساتھ ’’مَا‘‘ اس آیت میں مصدریہ کے معنی میں بھی لیا گیا