کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 93
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا یونس علیہ السلام نے جب مچھلی کے پیٹ میں اللہ کی تسبیح ﴿لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ پڑھی تو فرشتوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے عرض کی: بارالٰہا! تسبیح کی یہ مانوس آواز ہم بڑی اجنبی جگہ سے سن رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تم اسے نہیں جانتے؟ انھوں نے عرض کیا: وہ کون ہیں؟ فرمایا: یہ میرا بندہ یونس ہے۔ فرشتوں نے کہا: تیرا بندہ یونس جس کے ہمیشہ مقبول اعمال اوپر آتے اور دعائیں قبول ہوتی تھیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں، انھوں نے عرض کیا: جو کچھ وہ آسانیوں میں کرتا تھا اس کی بنا پر آپ اس پر رحمت کیوں نہیں کرتے اور مصیبت سے نجات کیوں نہیں دیتے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں میں اسے نجات دیتا ہوں۔ چنانچہ مچھلی کو حکم دیا تو اس نے حضرت یونس کو میدان پر ڈال دیا۔[1] مگر اس کی سند میں یزید بن ابان الرقاشی ہے جو ضعیف ہے۔[2] جامع ترمذی میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَّسْتَجِیْبَ اللّٰہُ لَہُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ، فَلْیُکْثِرِ الدُّعَائَ فِيْ الرَّخَآئٓ )) [3] ’’جو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مشکلات میں اس کی دعا قبول کرے اسے چاہیے کہ خوش حالی میں بہ کثرت دعا کیا کرے۔‘‘ اس لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو آسودگیوں میں یاد رکھنا اور اس کی نعمتوں کا شکر کرتے رہنا جہاں اللہ تعالیٰ کی مزید عنایتوں کا باعث ہے وہاں شدائد و محن میں مدد و نصرت کا بھی سبب ہے۔ بلکہ مومن اور مشرک میں فرق ہی یہ ہے کہ شجر طیبہ کی طرح مومن سدابہار ہوتا
[1] ابن جریر، ابن أبي حاتم، ابن کثیر. [2] تقریب (ص: ۳۸۱). [3] ترمذي (۳۳۸۲) وحسنہ وغیرہ۔ الصحیحۃ (۵۹۳).