کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 91
اسی طرح فرمایا: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴾ [قٓ: ۱۶] ’’اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسے اس کے دل میں ہیں اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ اسی حوالے سے مزید دیکھیے: المومن (آیت: ۱۹)، النمل: (آیت: ۷۴)، الانعام: (آیت: ۳)، المجادلہ: (آیت: ۶، ۷) وغیرہ۔ لیکن یہاں معرفت خاصہ مراد ہے۔ سیدنا یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے: ﴿فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ (143) لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴾ [الصافات: ۱۴۳، ۱۴۴] ’’اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں نہ ہوتا تو جس دن تک لوگ (دوبارہ زند ہو کر) اٹھائے جائیں گے وہ اسی کے پیٹ میں رہتا۔‘‘ سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما ، امام قتادہ، سعید بن جبیر اورامام ابن جریر وغیرہ فرماتے ہیں کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ اگر وہ ہمارے نیک بندوں میں سے جو نماز پڑھتے رہتے اور ذکر کرتے رہتے ہیں، نہ ہوتے۔ ’’سُبْحَۃ‘‘ کا اطلاق نفلی نماز پر ہوتا ہے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ ’’السُبحہ‘‘ نفلی نماز کو کہتے ہیں، الله تعالیٰ کے فرمان: ﴿ فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ﴾ کے بارے میں ائمۂ تفاسیر نے کہا ہے یہاں ﴿ الْمُسَبِّحِينَ ﴾ کے معنی ’’المصلین‘‘ ہے۔ البتہ ’’سُبحۃ‘‘ اکثر نفلی نماز کے لیے ہے۔[1]
[1] الاستذکار (۶/ ۱۴۵).