کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 89
یہی حدیث کا مفہوم ہے۔ حلول و اتحاد کی گمراہی میں مبتلا جو اس سے مفہوم کشید کرنے کی جسارت کرتے ہیں وہ سراسر گمراہی اور دین سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ اور یہ حدیث بجائے خود شرح کی متقاضی ہے، شائقین اس کے لیے حافظ ابن حجر کی ’’فتح الباري‘‘ (۱۱/ ۳۴۲-۳۴۷)، علامہ ابن رجب کی ’’جامع العلوم و الحکم‘‘ (ص: ۳۱۵، ۳۲۵، رقم الحدیث: ۳۸) اور علامہ شوکانی کا اس حدیث کی شرح میں مستقل رسالہ ’’قطر الولي علی حدیث الولي‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ الغرض کہ جسے یہ معیتِ خاصہ نصیب ہوجاتی ہے وہ ہر خوف سے بے خوف ہو جاتا ہے۔ ایک اللہ والے سفر پر جانے لگے، جب دوست انھیں الوداع کرنے کے لیے نکلے تو انھوں نے فرمایا: إذا نحن أدلجنا و أنت أمامنا کفی لمطایانا بذکرک ہادیا ’’جب ہم رات کو سفر کریں اور آپ ہمارے ساتھ آگے آگے ہوں تو ہماری سواریوں کے لیے آپ کا تذکرہ حدی خوانی کے لیے کافی ہے۔‘‘ حضرت بُنان الحمال تبوک کے سفر پر جا رہے تھے تو راہ چلتے ہوئے انھیں خوف اور وحشت محسوس ہوئی۔ تو کیا سنتے ہیں کہ انھیں کہا جا رہا ہے: ’’لِمَ تَسْتَوْحِشْ؟ أَلَیْسَ حَبِیْبُکَ مَعَکَ۔‘‘ تم خوف زدہ کیوں ہو؟ کیا تمھارا محبوب تمھارے ساتھ نہیں ہے! [1] اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی معیت اور حفاظت کا کچھ ذکر پہلے بھی ہوا ہے اس پر بھی نگاہ ڈال لیجیے۔
[1] الحلیۃ (۱۰/ ۳۲۴).