کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 78
’’اسی طرح ہوا، تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ہٹا دیں، بے شک وہ ہمارے خالص کیے ہوئے بندوں سے تھا۔‘‘ یہ جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰه يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ ﴾ [الأنفال: ۲۴] ’’اور جان لو کہ بے شک اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے۔‘‘ تو اس کے معنی یہ ہیں انسان کا دل ہر وقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے تصرف میں ہے جب کسی کی بدبختی مقدر ہوتی ہے تو اس کے دل اور نیک کام میں آڑ کر دی جاتی ہے۔ اسی لیے اس سے پہلے حکم ہے کہ جب تمھیں اللہ اور اس کا رسول بلائے تو فوراً اس پر لبیک کہو اور اس کی اطاعت میں دیر نہ کرو تاخیر میں شاید دل ایسا نہ رہے اور تم اطاعت سے محروم ہو جاؤ یا اس کی تعمیل میں پیچھے رہ جاؤ۔ اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو برائیوں سے محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے دل اور گناہوں کے مابین رکاوٹ پیدا کر دیتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت ام سلمہ اور دیگر صحابہ کرام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے: (( اَللّٰہُمَّ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰی دِیْنِکَ )) ’’اے اللہ! اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔‘‘ آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ یہ دعا اکثر پڑھتے ہیں، کیا دل بدلتے رہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اولادِ آدم کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے مابین