کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 77
میرے (نیک) بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘[1] دین پر استقامت اختیار کرنے والا نفس ہی نفس مطمئنہ ہے جو احکامِ شرعیہ پر ایسا مطمئن ہوتا ہے کہ اس کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ اس کی تعمیل میں ناگواری اور گرانی بھی محسوس نہیں کرتا۔ اسی حفاظت واستقامت کی وہ دعا بھی ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کوئی سونے کے لیے بستر پر لیٹنے لگے تو بستر کو جھاڑ لے پھر یہ دعا پڑھے: (( بِاسْمِکَ رَبِّيْ وَضَعْتُ جَنْبِيْ وَ بِکَ أَرْفَعُہٗ، إِنْ أَمْسَکْتَ نَفْسِيْ فَارْحَمْہَا، وَ إِنْ أَرْسَلْتَہَا فَاحْفَظْہَا بِمَا تَحْفَظُ بِہٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنَ )) [2] ’’اے میرے پروردگار! تیرے نام کے ساتھ میں نے اپنا پہلو بستر پر رکھا اور تیرے نام ہی کے ساتھ اسے اٹھاؤں گا۔ اگر تو نے میری روح قبض کر لی تو اس پر رحم فرمانا اور اگر لوٹا دی تو اس کی حفاظت فرمانا جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ اللہ اپنے نیک بندوں کی جسمانی ہی نہیں ایمانی حفاظت بھی کرتا ہے۔ بلکہ دنیوی اور جسمانی حفاظت میں تو مومن وکافر اور صالح و طالح برابر ہیں اصل حفاظت تو مومن کے ایمان واعمال صالحہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو معصیت سے بچاتا اور عمل صالح کی راہ اس کے لیے آسان فرما دیتا ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ﴾ [یوسف: ۲۴]
[1] السیر، الاصابۃ۔ [2] صحیح البخاري (۶۳۲۰) مسلم.