کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 76
یعنی استقامت میں جو کوتاہی پہلے ہوئی یا آئندہ ہو گی اس سے بخشش کی دعا کرتے رہو۔ اس حوالے سے بہت سی باتیں باقی ہیں۔ مقصد صرف یہ تھا کہ دین کی حفاظت سے دین پر استقامت اور مداومت مراد ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اس پر سکینت نازل فرماتے ہیں اور اسے ایمان پر موت نصیب کرتے ہیں اور بعد کے مراحل آسان فرمادیتے ہیں۔ فرشتے اسے جنت کی بشارت دیتے ہیں، جیسا کہ سورۂ فصلت (آیت: ۳۰) میں اوپر بیان ہوا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰه ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (13) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ [الأحقاف: ۱۳۔ ۱۴] ’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب صرف اللہ ہے، پھر (اس پر) خوب قائم رہے تو ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ لوگ جنتی ہیں، ہمیشہ اس میں رہیں گے، اس کے بدلے میں جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا اور انھیں قبر میں اتارا گیا تو حاضرین نے سنا کہ کوئی یہ آیت پڑھ رہا ہے: ﴿يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (27) ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (28) فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (29) وَادْخُلِي جَنَّتِي ﴾ [الفجر: ۲۷-۳۰] ’’اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی طرف چل، اس حال میں کہ تو (اپنے انجام سے) راضی ہو، اور (اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ پھر