کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 75
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مرو، مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’جیسے اللہ سے ڈرنے کا حق ہے‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے، اسے یاد کیا جائے بھلایا نہ جائے، اس کا شکر کیا جائے ناشکری نہ کی جائے۔[1] گویا زبان ذاکر رہے، دل شاکر رہے اور اعضاء اللہ کی بندگی میں لگے رہیں۔ اسی مداومت کا نتیجہ ایمان پر موت نصیب ہونا ہے۔ اسی مداومت و استقامت کی ہر نمازی دعا مانگتا ہے۔ کسی نے کیا خوب فرمایا ہے: ’’استقامت در اقوال بترک غیبت، و در افعال بترک بدعت و در اعمال بنفی فترت، و در احوال بنفی حجبت۔‘‘ ’’اقوال میں استقامت یہ ہے کہ غیبت چھوڑ دی جائے، افعال میں یہ کہ بدعت چھوڑ دی جائے، اعمال میں یہ کہ ا ن میں تعطل و توقف نہ ہو اور احوال میں یہ کہ حجاب نہ ہو ( پیہم ومسلسل عمل میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے، تاآنکہ منزل مقصود پا لے)۔‘‘ ’’استقامت‘‘ میں تقصیر واقع ہو جاتی ہے۔ انسان اس پر بہت سے حجابات کے باعث قائم نہیں رہتا۔ اسی بنا پر فرمایا: ﴿أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ﴾ [فصلت: ۶] ’’تمھارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، سو اس کی طرف سیدھے ہو جاؤ اور اس سے بخشش مانگو۔‘‘
[1] حاکم، رقم (۳۱۵۹) ابن کثیر (۱/ ۴۱۶).