کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 71
رہتا ہے اور نیکی کی راہ پر لگا رہتا ہے جیسا کہ اس حدیث پاک میں ہے، قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے: ﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى (5) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (6) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى ﴾[الیل: ۵-۷] ’’تو جس نے (اللہ کی راہ میں مال) دیا اور (نافرمانی سے) پرہیز کیا اور بھلائی کو سچ مانا، اس کو ہم آسان راستے کی سہولت دیں گے، اس کے لیے دین پر چلنا، احکام کی پابندی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‘‘ اسی کے نتیجے میں وہ منزل مراد پا لیتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ﴾ [النحل: ۹۷] ’’جو شخص نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور ہو وہ مومن، اسے ہم اچھی زندگی بسر کرائیں گے۔‘‘ یہی بات ایک اور مقام پر یوں بیان فرمائی ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰه ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ﴾ [فصلت: ۳۰] ’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب صرف اللہ ہے پھر (اس پر) خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔‘‘ ایمان پر اسی استقامت کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے چنانچہ حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: