کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 70
(( اللّٰہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَأحْیِہٖ عَلَی الْإِسْلَامِ، وَ مَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْإِیْمَانِ )) [1] ’’اے اللہ! ہم میں سے جسے تُو زندہ رکھے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے فوت کرے حالت ایمان میں فوت کر۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے: ’’(( مَا مِنْ نَبِیٍّ یَمْرَضُ إِلاَّ خُیِّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ )) وَکَانَ فِيْ شَکْوَاہُ الَّذِی قُبِضَ فِیْہِ أَخَذَتْہُ بُحَّۃٌ شَدِیْدَۃٌ فَسَمِعْتُہُ یَقُوْلُ: (( مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصَّالِحِیْنَ )) فَعَلِمْتُ أَنَّہُ خُیِّرَ‘‘[2] ’’کوئی نبی (مرض الموت میں) بیمار نہیں ہوتا حتی کہ اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس بیماری میں فوت ہوئے آپ کو گلے کی سخت تکلیف ہو گئی تو میں نے سنا آپ فرما رہے ہیں: ﴿مَعَ الَّذیْنَ۔۔۔ الآیۃ﴾ ’’میں ان کا ساتھ چاہتا ہوں جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالح لوگوں میں سے۔ تو میں سمجھ گئی کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔‘‘ اس لیے ایمان پر موت اور صالحین کی رفاقت کی دعا انبیائے کرام حتیٰ کہ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کی ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں بھی اسلام پر قائم رکھے اور ایمان پر موت نصیب فرمائے۔ (آمین) یہ سعادت اللہ تعالیٰ اس خوش نصیب کو عطا فرماتا ہے جو صراط مستقیم پر قائم
[1] أبو داود (۳۲۰۱) السنن الکبری للنسائي (۱۰۹۱۹). [2] صحیح البخاري (۴۵۸۶).