کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 67
علامہ دمیری نے شعب الایمان کے حوالے سے لکھا ہے کہ بادشاہِ وقت نے حضرت دانیال علیہ السلام کو ایک پرانے کنویں میں پھینک دیا اور اوپر سے خون خوار شیر کو بھی اس میں گرا دیا، مگر شیر ان کی چاپلوسی کرنے لگا اسی اثنا میں اللہ کا فرشتہ کھانا لے کر حاضر ہوا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے۔ حضرت دانیال علیہ السلام نے فرمایا: ’’ أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ لَا یَنْسٰی مَنْ ذَکَرَہٗ ‘‘ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو نہیں بھولتا جو اسے یاد کرتا ہے۔[1] صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی امارت میں تین سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا لشکر جہاد کے لیے روانہ کیا۔ صرف ایک تھیلی کھجوروں کی انھیں دی گئی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ہر ایک کو روزانہ ایک کھجور دیتے، کسی نے پوچھا آپ ایک کھجور کو کیا کرتے تھے؟ فرمایا اسی ایک کھجور سے سارا دن گزارتے تھے، کھجور کھا کر پانی پی لیتے اور گٹھلی کو بچوں کی طرح چوستے تھے۔ بھوک سے ستائے ہوئے درختوں کے پتے جھاڑ کر انھیں پانی میں بھگو کر کھایا کرتے تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم سمندر کے کنارے جا رہے تھے کہ ساحل پر ایک بڑا ٹیلا نظر آیا۔ ہم وہاں پہنچے تو وہ عنبر نامی مچھلی تھی، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اسے مردہ سمجھ کر کھانے میں تامل کیا پھر سوچا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اللہ کی راہ میں نکلے ہیں کھانے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں لہٰذا مجبوراً ہم کھا سکتے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم تین سو کی تعداد میں تھے، ہمارا وہاں ایک ماہ قیام رہا اور ہم اس کا گوشت کھاتے رہے، اس کی آنکھ کے گڑھے سے ہم نے تیل کے مٹکے حاصل کیے بیل کے جسم کے برابر ہم اس کا گوشت کاٹ کر کھاتے رہے۔
[1] حیاۃ الحیوان (۱/ ۵).