کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 66
کوئی سبیل بنا دیں گے۔‘‘ والسلام حضرت حکم کا اشارہ قرآنِ مجید کی سورۃ الطلاق میں آیت نمبر (۲) کی طرف تھا۔ واللّٰه أعلم۔ اسی حوالے سے حضرت سفینہ کا واقعہ مشہور ہے۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خریدا اور اس شرط پر آزاد کر دیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرو گے۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم دریا میں کشتی پر سوار تھے، کشتی ٹوٹ گئی، میں ایک تختے پر بیٹھ گیا اور ایک جزیرے میں جا پہنچا۔ میں چلا جا رہا تھا کہ میرے سامنے خون خوار شیر آگیا اور وہ حملہ آور ہونا چاہتا تھا کہ میں نے کہا: ’’أنا سفینۃ مولی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ‘‘ ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام سفینہ ہوں۔‘‘ اس نے آہستہ سے سینے سے آواز نکالی اور اپنے سر سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے مجھے راستے پر لا کھڑا کیا، پھر اس نے آواز نکالی، میں نے سمجھا کہ وہ مجھے الوداعی سلام کہہ رہا ہے۔[1] امام بیہقی رحمہ اللہ وغیرہ نے انھی سے یہ واقعہ بھی ذکر کیا ہے کہ سرزمین روم میں مَیں اپنے لشکر سے بچھڑ گیا تو رومیوں نے مجھے پکڑ لیا میں موقع پا کر ان کے ہاں سے بھاگ نکلا اپنے لشکر کی تلاش میں تھا کہ اچانک شیر سے آمنا سامنا ہو گیا میں نے کہا: ’’یا أبا الحارث أنا سفینۃ مولی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ‘‘ ’’اے شیر! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام سفینہ ہوں۔‘‘ چنانچہ شیر دُم ہلا کر چاپلوسی کرنے لگا اور میرے پہلو میں کھڑا ہوگیا جب کسی جانب سے کوئی آواز آتی تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوجاتا، پھر میرے ساتھ چلنے لگتا۔ یوں ہی وہ میرے ساتھ چلتا رہا تاآنکہ میں لشکر سے جا ملا اور شیر واپس پلٹ گیا۔[2]
[1] معجم الصحابۃ للبغوي، معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم، البزار، الطبراني، الحلیۃ، مجمع: (۹/ ۶۳۶، ۶۳۷) الحاکم، (ج: ۳/ ۴۲۳۵) و صححہ۔ [2] عبدالرزاق (۲۰۵۴۴) الحلیۃ (۹/۱۳۰) شعب الإیمان، مشکاۃ (۵۹۴۹).