کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 62
اس لیے اس فطری کمزوری سے تو کوئی بھی مستثنیٰ نہیں۔ البتہ ارذل العمر کے عارضے سے اپنے منصبِ دعوت و تبلیغ کی بنا پر انبیائے کرام علیہم السلام مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ دین کی حفاظت اور صیانت کی خدمت گزاری میں اہلِ علم و فضل بھی اکثر و بیشتر ارذل العمر کے عارضے سے محفوظ ہوتے ہیں اور بڑی عمر میں عزت پاتے ہیں۔ جب کہ دین اسلام سے اِعراض کرنے والا اور دین سے بیزار شخص عموماً کسمپرسی کی زندگی گزارتا ہے۔ شیخ جنید بغدادی نے ایک بوڑھے کو دیکھا کہ وہ بھیک مانگ رہا ہے تو انھوں نے فرمایا: اس نے جوانی میں اللہ کے دین کی پروا نہیں کی تو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں اس کی پروا نہیں کی، جیسے منافقوں کے ذکر پر فرمایا: ﴿نَسُوا اللّٰه فَنَسِيَهُمْ ﴾ [التوبۃ: ۶۷] ’’وہ اللہ کو بھول گئے تو اس نے انھیں بھلا دیا۔‘‘ یا جیسے فرمایا: ﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللّٰه فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ [الحشر: ۱۹] ’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اس نے انھیں ان کی جانیں بھلوا دیں، یہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بھولے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسے نسیان میں مبتلا کر دیا کہ وہ اپنے نفع و نقصان ہی سے بے خبر ہو گئے۔ یوں ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ دنیا ہی میں اولاد بھی اپنا رخ بدل لیتی ہے۔ یورپ میں ’’اولڈ ہاؤسز‘‘ عبرت کا نمونہ ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے یہ حفاظت صرف حدود الٰہی کی حفاظت کرنے