کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 60
’’اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں بزدلی سے اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں بخیلی سے اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں کہ ’’ارذل العمر‘‘ کی طرف لوٹایا جاؤں اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں دنیا کے فتنے سے اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں عذابِ قبر سے۔‘‘ یہی روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور اس میں ’’أرذل العمر‘‘ کے بجائے ’’الہرم‘‘ یعنی بڑھاپے کا ذکر ہے اور بعض الفاظ کا اضافہ بھی ہے۔[1] پیرانہ سالی میں ضعف و ناتوانی ایک فطرتی عمل ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ اللّٰه الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ ﴾ [الروم: ۵۴] ’’اللہ وہ ہے جس نے تمھیں کمزوری سے پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت بنائی، پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا بنا دیا، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور وہی سب کچھ جاننے والا ہے ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ أَفَلَا يَعْقِلُونَ ﴾ [یٰسٓ: ۶۸] ’’اور جسے ہم عمر دیتے ہیں اسے بناوٹ میں الٹا کر دیتے ہیں تو کیا یہ نہیں سمجھتے!‘‘ قوت، یعنی جوانی کے بعد پھر ضعف یہی بڑھاپا ہے اور اسی کو بناوٹ میں الٹا کر دینے سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں اعضاء کمزور پڑ جاتے ہیں، جس عقل و دانش پر ناز کرتا
[1] صحیح البخاري (۲۸۲۳، ۶۳۷۱).