کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 58
سے محفوظ رہتے ہیں۔ امام عکرمہ رحمہ اللہ نے تو فرمایا ہے: ’’مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ لَمْ یُرَدَّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمْرِ‘‘[1] ’’جو قرآن کی تلاوت کا اہتمام کرتا ہے، وہ ’’ارذل العمر‘‘ میں مبتلا نہیں کیا جاتا۔‘‘ بڑھاپے میں اور بیماری میں اعمال حسنہ نہ کر پانے پر بھی اس کی وہ حسنات لکھی جاتی ہیں جنھیں جوانی اور صحت و تن درستی میں سرانجام دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ بڑھاپے میں اسے مخلص رفقاء عطا فرما دیتا ہے جو اس کی خدمت گزاری کو اپنے لیے عزت و شرف کا باعث سمجھتے ہیں اور اس سے روحانی فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں۔ گویا وہ بڑھاپے اور بے بسی میں بھی بے کار نہیں ہوتے۔ امام ابوطیب طبری سو سال سے متجاوز تھے، مگر قوتِ جسمانی و فکری سے بہرہ وَر تھے۔ ایک مرتبہ وہ کشتی سے زمین پر پوری قوت سے کود پڑے تو کشتی والوں نے کہا: یہ آپ نے کیا کیا؟ تو انھوں نے فرمایا: ’’ھٰذِہِ الْجَوَارِحُ حَفِظْنَاھَا عَنِ الْمَعَاصِيْ فِيْ الصِّغْرِ فَحَفِظَھَا اللّٰہُ عَلَیْنَا فِيْ الْکِبْرِ‘‘[2] ’’ہم نے اپنے اعضاء کو بچپن میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے محفوظ رکھا ہے تو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں انھیں ہمارے لیے محفوظ کر دیا ہے۔‘‘ کسی نے سو سال کے بعد ان کی صحت پر تعجب کا اظہار کیا تو انھوں نے فرمایا میری صحت کا راز یہ ہے کہ ’’مَا عَصَیْتُ اللّٰہَ بِوَاحِدَۃٍ مِنْھَا‘‘[3]
[1] ابن أبي شیبۃ (۱۰/ ۴۲۸). [2] البدایۃ (۱۲/ ۸۰) نور الاقتباس. [3] السیر (۱۷/ ۶۷۰).