کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 57
بندوں کی پردہ پوشی چاہتے ہیں اور فرشتوں کو گواہ بنانا چاہتے ہیں جنھوں نے کہا تھا: ﴿وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ﴾ [البقرۃ: ۳۰] ’’اور ہم تیری حمد کے ساتھ تیری پاکیزگی اور تیری تقدیس بیان کریں گے۔‘‘ فرشتو! تم گواہ رہو، انسانوں میں میرے یہ بندے بھی ہیں جو تمھاری طرح میری تسبیح و تحمید شب و روز بیان کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی یہ حفاظت تو بلاامتیاز سب انسانوں کے لیے ہے مگر بندۂ مومن جب اللہ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت اور ان کی پابندی کرتا ہے تو اسے حفاظتِ خاصہ حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کی صحت، اس کی عقل و فہم اور اس کی عزت و آبرو محفوظ فرما دیتے ہیں۔ جس کا اشارہ سورۃ التین میں فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت عطا فرمائی: ﴿ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (5) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ﴾ [التین: ۵۔ ۶] ’’پھر ہم نے اسے لوٹا کر نیچوں سے سب سے نیچا کر دیا۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس، عکرمہ وغیرہ فرماتے ہیں ﴿ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ﴾ سے مراد ’’ارذل العمر‘‘ ہے جس میں جوانی بڑھاپے میں تبدیل ہو جاتی ہے، خوب صورتی روز بہ روز مرجھا جاتی ہے، بیماریاں گھیر لیتی ہیں اور دوسروں کے ہاتھوں انسان محتاجی کی زندگی گزارتا ہے اور ان پر بار بن جاتا ہے۔ مگر مومنین صالحین ایسی بے بسی و بے کسی