کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 55
یہ دعا دراصل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان کے تناظر میں ہے: ﴿لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللّٰه ﴾ [الرعد: ۱۱] ’’اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے کئی پہرے دار ہیں۔‘‘ فرشتوں کے ذریعے الله تعالیٰ کی اسی حفاظت کا ذکر یوں بھی ہوا ہے: ﴿إِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ﴾ [الطارق: ۴] ’’نہیں کوئی جان مگر اس کے اوپر ایک حفاظت کرنے والا ہے۔‘‘ یہ باری باری آکر انسان کی حفاظت کرنے والے فرشتے ہیں جو اسے حوادثات سے بچاتے ہیں، مگر جب اللہ کی تقدیر میں کوئی پریشانی مقدر ہو تو وہ انسان سے دُور ہو جاتے ہیں اور یوں انسان کسی آفت یا حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی حفاظت کا ذکر ایک اور مقام پر بھی ہے: ﴿وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ﴾ [الأنعام: ۶۱] ’’اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اورتمھاری حفاظت ونگرانی رکھنے والے بھیجتا ہے۔‘‘ یہ حفاظت و نگرانی انسان کے اعمال کی بھی ہے جیسے فرمایا: ﴿مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ﴾ [ق: ۱۸] ’’اور وہ کوئی لفظ بھی نہیں بولتا، مگر اس کے پاس مستعد نگران موجود ہوتا ہے۔‘‘ ﴿وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِينَ (11) يَعْلَمُونَ مَا