کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 39
’’جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ پھر تم سمجھو کہ اس سے دوسرا کام بہتر ہے تو تم اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور بہتر کام کر لو۔‘‘ ’’صحیح البخاري‘‘ (حدیث: ۶۶۲۱) ہی میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ قسم کی بالکل خلاف ورزی نہیں کرتے تھے مگر جب قسم کے کفارے کی آیات نازل ہوئیں تو فرماتے تھے: اگر کسی کام پر قسم کھاؤں، مگر دوسرا کام اس کی بجائے بہتر ہو تو میں کفارہ دے دوں گا اور بہتر کام کر لوں گا۔ (3) الیمین الغموس: تیسری قسم یہ ہے کہ قصد و ارادے سے دھوکا دینے کے لیے یا کسی مجرم کو بچانے کے لیے جھوٹی قسم اُٹھائی جائے۔ اسے یمین غموس کہتے ہیں۔ یہ کبیرہ گناہ ہے حدیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلْکَبَائِرُ، أَلْإِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعَقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَالْیَمِیْنُ الْغَمُوْسُ )) [1] ’’بڑے بڑے گناہ؛ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناجائز قتل کرنا اورجھوٹی قسم کھانا ہیں۔‘‘ اسی جھوٹی قسم کے بارے میں جمہور کہتے ہیں کہ اس کبیرہ گناہ کا کفارہ نہیں صرف توبہ ہے، حتیٰ کہ علامہ ابن عبدالبر اور امام ابن المنذر وغیرہ نے اس پر صحابہ کا اجماع ذکر کیا ہے۔ لیکن امام شافعی، امام اوزاعی، عطاء اور ابن حزم وغیرہ فرماتے ہیں اس کا بھی کفارہ ہے۔[2] قسم کے احکام و مسائل کا دائرہ وسیع ہے ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قسموں کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
[1] صحیح البخاري، رقم (۶۶۷۵). [2] فتح الباري (۱۱/ ۵۵۷).