کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 36
وَمَنْ لَمْ یُحَافِظْ عَلَیْھَا لَمْ یَکُنْ لَہٗ نُوْرٌ وَّبُرْھَانٌ وَّلَا نِجَاۃٌ، وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ قَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَھَامَانَ وَأُبَيِّ بْنِ خَلْفٍ )) [1] ’’جس نے نماز کی حفاظت کی اس کے لیے قیامت کے دن نور ہو گا، بخشش کی دلیل ہو گی اور (باعث) نجات ہوگی اور جو نماز کی حفاظت نہیں کرے گا اس کے پاس نہ نور ہو گا نہ دلیل ہو گی نہ نجات ہو گی اور قیامت کے روز وہ قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔‘‘ علامہ منذری نے ’’الترغیب‘‘ (۱/ ۳۸۶) میں اس کی سند کو جید اور علامہ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ (ص: ۲۹۲) میں کہا ہے کہ مسند احمد کے راوی ثقہ ہیں۔مگر علامہ البانی نے حاشیہ مشکاۃ اور ضعیف الترغیب میں فرمایا ہے کہ اس کی سند غیر جید ہے کیوں کہ راوی عیسیٰ بن ہلال مجہول الحال اور ابن حبان کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ مگر یہ اعتراض درست نہیں۔ عیسیٰ بن ہلال سے ایک جماعت نے روایت کی ہے، تابعین میں ایسے راویوں کو جنھیں امام ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ انھیں صدوق و ثقہ کہتے ہیں۔ جس کی تفصیل یہاں مناسب نہیں۔ نیز امام ابن حبان رحمہ اللہ کے علاوہ امام یعقوب فسوی نے بھی ’’المعرفۃ و التاریخ‘‘ (۲/ ۵۱۵) میں اسے ثقہ کہا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کو حسن[2] اور حاکم نے اس کی حدیث کو صحیح بلکہ علی شرط شیخین صحیح کہا ہے۔[3] علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے یہ صرف صحیح ہے، ’’علی شرط شیخین صحیح‘‘ کہنا درست نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے صدوق کہا ہے۔[4] اس لیے یہ حدیث حسن، جید ہے، ضعیف نہیں۔
[1] مسند أحمد (۲/ ۱۶۹) دارمي، ابن حبان وغیرہ. [2] ترمذی، حدیث (۲۵۸۸). [3] مستدرک (۲/ ۴۳۸، ۵۳۶، ۴/ ۲۲۴، ۴۳۶، ۵۹۴). [4] تقریب (ص: ۲۷۳).