کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 32
ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى ﴾ [البقرۃ: ۲۳۸] ’’سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی۔‘‘ درمیانی نماز سے نماز عصر مراد ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے موقعہ پر فرمایا: (( مَلأََ اللّٰہُ بُیُوْتَہُمْ وَقُبُوْرَہُمْ نَارًا، شَغَلُوْنَا عَنْ صَلاَۃِ الْوُسْطیٰ حَتَّی غَابَتِ الشَّمْسُ )) [1] ’’اللہ تعالیٰ ان کافروں کے گھروں اورقبروں کو آگ سے بھر دے، انھوں نے ہمیں صلاۃ وسطیٰ سے مشغول کر دیا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔‘‘ اس موضوع کی اور احادیث بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صلاۃ وسطیٰ سے نماز عصر مراد ہے۔ نماز عصر ہی ہے کہ جس کے بلا عذر وقت پر نہ پڑھنے کے بارے میں بڑی شدید وعید آئی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( الَّذِیْ تَفُوْتُہُ صَلاَۃُ الْعَصْرِ کَأَنَّمَا وُتِرَ أَہْلَہٗ وَمَالَہٗ )) [2] ’’جس کی نماز عصر فوت ہو جائے، گویا اس کا اہل و مال ہلاک ہو گیا۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا ہے کہ فوت ہونے سے مراد یہ ہے کہ جو بغیر عذر کے نماز عصر کے وقت سے موخر کر کے پڑھتا ہے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح البخاري (۲۹۳۱، ۴۵۳۳) مسلم. [2] صحیح البخاري (۵۵۲) وغیرہ.