کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 30
حواشی میں اسے شواہد کی بنا پر صحیح کہا ہے۔[1] اس روایت میں اگر کچھ کلام تسلیم کیا جائے تب بھی حفظ حدود و احکام کا حکم قرآن مجید سے ثابت ہے چنانچہ مومنوں کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وہ: ﴿الْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللّٰه ﴾ [التوبۃ: ۱۱۲] ’’اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ‘‘ رمضان المبارک اور اعتکاف کے مسائل بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللّٰه فَلَا تَقْرَبُوهَا ﴾ [البقرۃ: ۱۸۷] ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں سو ان کے قریب نہ جاؤ۔‘‘ اسی طرح طلاق کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللّٰه فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰه فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ [البقرۃ: ۲۲۹] ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں سو ان سے آگے مت بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے گا تو یہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘ اسی طرح بہت سے دیگر مسائل بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔ (ملاحظہ ہو: المجادلۃ، آیت: ۴، البقرۃ، آیت: ۲۳۰، الطلاق، آیت: ۱) وراثت کے احکام بیان کرنے اور ہر ایک کا حصہ بیان کر دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان حصوں کو حدود اللہ کہا ہے اور ان حدود سے تجاوز کرنے والوں کے بارے میں فرمایا:
[1] مجمع (۲/ ۲۵۵، ۱۴/ ۲۴۹) ط دار المنھاج.