کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 22
ہوئے فرمایا: ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم ہے۔[1] حضرت زید بن ثابت ۴۵ یا ۴۸ھ میں فوت ہوئے تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت کا ’’حَبر‘‘ فوت ہو گیا۔ امید ہے اللہ تعالیٰ ان کا قائم مقام ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بنائے گا۔[2] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے معروف شاگرد حضرت عطاء کا بیان ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مجلس سے بہتر کوئی مجلس نہیں دیکھی سب سے زیادہ وہ فقیہ اور سب سے زیادہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے۔ اصحاب فقہ ہوں، اصحاب قرآن ہوں یا شعر و ادب کے ماہر، سب ان کے ہاں حاضر ہوتے اور ان سے مستفید ہوتے۔ [3] ان کے ہاں مجالس علمیہ منعقد ہوتی تھیں، عبیدالله بن عبدالله کا بیان ہے کہ ہم ایک رات ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما ہمیں مغازی کی روایات بیان کرتے، دوسری رات حسب و نسب کے بارے میں اور تیسری رات شعر و ادب بیان کرتے۔[4] عبدالله بن ابی الہذیل فرماتے ہیں کہ مجھے اہلِ کوفہ نے سوالات لکھ کر دیے کہ جاؤ ان کا جواب ابن عباس رضی اللہ عنہما سے معلوم کرو، چنانچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، ان تمام سوالات کے بارے میں ان سے پوچھا تو اٹھنے سے پہلے ان کا جواب پا لیا۔[5] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علم و فہم کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اُنھیں اپنے قریب بٹھاتے اور فرماتے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا انھوں نے ایک روز تمھیں اپنے پاس بلایا تمھارے سر پر دست مبارک رکھا اور فرمایا: اے اللہ! اسے دین میں فقہ و بصیرت عطا فرما اور قرآن پاک کی تاویل و تفسیر کا علم عطا فرما۔[6]
[1] المعرفۃ و التاریخ (۱/ ۴۸۴) طبراني وغیرہ. [2] ابن سعد (۲/ ۳۶۲). [3] الحلیۃ. [4] السیر، ابن سعد. [5] ابن سعد، الکنیٰ للدولابي (۷۲/ ۱۲۶). [6] معجم الصحابۃ للبغوي، فتح الباري (۱/ ۱۷۰) وغیرہ.