کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 19
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ دس سے زاید روایات میں سماع کی صراحت تو بخاری و مسلم میں ہے اور اسّی کے قریب وہ روایات ہیں جن میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بارے میں اپنا مشاہدہ ذکر کرتے ہیں۔ صحیحین کے علاوہ دیگر کتبِ احادیث میں ایسی روایات ان پر مستزاد ہیں۔[1]
اس بحث کے حوالے سے انھوں نے فتح الباری میں فرمایا ہے کہ میں نے اس بارے میں ان کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی احادیث کو جمع کیا ہے جو صحیح و حسن سند سے مروی ہیں اور ان کی تعداد چالیس سے زاید ہے۔ اور جو روایات حکماً سماع پر محمول ہیں وہ ان پر مستزاد ہیں۔[2]
ان احادیث مبارکہ کے علاوہ اکثر و بیشتر انھوں نے صحابہ کرام سے احادیث کا سماع کیا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی نہیں بہت سے صحابہ ایک دوسرے سے حدیث کا سماع کرتے اور انھیں براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے باے میں منقول ہے کہ انھوں نے ایک حدیث بیان کی تو حاضرین میں سے ایک نے یہ سوال داغ دیا: کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انھوں نے جواباً فرمایا:
’’وَاللّٰہِ مَا کُلُّ مَا نُحَدِّثُکُمْ بِہِ سَمِعْنَاہٗ مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَ لٰکِنْ کَانَ یُحَدِّثُ بَعْضُنَا بَعْضًا‘‘[3]
’’ہم تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو باتیں بیان کرتے ہیں وہ سب ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنیں بلکہ ہم میں سے بعضوں نے بعض کو بیان کیں ہیں۔‘‘
[1] تہذیب (۵/۲۷۹).
[2] فتح الباري (۱۱/۳۸۳، تحت رقم: ۶۵۲۴).
[3] المستدرک للحاکم (۳/ ۵۷۵).