کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 174
(( وَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا )) ’’اور بے شک ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے۔‘‘ یہی بات اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بہ تکرار فرمائی ہے: ﴿ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5) إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴾ [الإنشراح: ۵، ۶] ’’پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے۔ بے شک ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے۔‘‘ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے لیے تسلی ہے کہ تم جن کٹھن حالات سے گزر رہے ہو یہ ہمیشہ نہیں رہیں گے بلکہ عنقریب اچھے حالات آنے والے ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے ساتھ اس وعدے کو اللہ تعالیٰ نے پورا کیا اور اہلِ دنیا نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیا۔ اب بھی اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے، سختیوں پر صبر کرے، سب سے ٹوٹ کے اللہ تعالیٰ سے جڑ جائے اور جلدی نہ کرے، کامیابی میں تاخیر سے نااُمید نہ ہو تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے لیے آسانی پیدا فرما دے گا۔ تنگی کے بعد آسانی کے وعدہ کا ایک اور مقام پر بھی ذکر ہوا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی کے نان و نفقہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وسعت والے اپنی وسعت کے مطابق خرچ کریں اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کریں بخل نہ کریں، اس کے بعد فرمایا ہے: ﴿ سَيَجْعَلُ اللّٰه بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴾ [الطلاق: ۷] ’’عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کر دے گا۔‘‘ گویا آج اگر حالات بہتر نہیں تو پریشان نہ ہوں مستقبل میں اللہ آسانی پیدا