کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 173
یوں یہ خاتون دائیہ بن کر شاہی محل میں رہنے لگی۔ یہ بچہ مامون تھا، جب مامون خلیفہ بنا تو یہ خاتون اور اس کا بیٹا اس کے ہاں تھا۔ مامون نے اس کے بیٹے کو گھر تعمیر کروا دیا۔ تاجر نے پوچھا کہ وہ عورت زندہ ہے تو اسے بتلایا گیا کہ ہاں زندہ ہے کچھ دن وہ اپنے بیٹے کے ساتھ گزارتی ہے اور کچھ دن مامون کے محل میں بسر کرتی ہے۔ تاجر لوگوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا تو گھر کو نہایت خوب صورت پایا۔ صحن میں ایک نوجوان کو دیکھا جو اس کے مشابہ تھا اس کے سامنے رجسٹر رکھا ہوا ہے، مال تول تول کر لوگوں کو دے رہا ہے، یہ تاجر بھی وہاں بیٹھ گیا۔ جب سب لوگ چلے گئے تو نوجوان نے پوچھا: بابا جی! آپ کا کیا معاملہ ہے؟ کیا کوئی ضرورت ہے؟ اس نے کہا: ہاں میں تمھارا باپ ہوں۔ نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا فوراً اُٹھا اور باپ کو کرسی پر بٹھایا۔ باپ نے کہا بیٹا اگر تم میری بات کی تصدیق چاہو تو اپنی والدہ سے پوچھ لو جس کا یہ نام ہے۔ جب خاتون نے اپنانام سنا تو اس نے پردہ دور کر دیا اور اپنے مالک سے آملی۔ وہ اسے بوسے دیتی اور روئے جاتی تھی۔ تاجر نے اپنی ساری آپ بیتی سنائی۔ پھر وہ خاتون اسے مامون کے گھر لے گئی اور مامون نہایت اِکرام سے پیش آیا اسے ساری کہانی سنائی تو اس نے اسے بیٹے کے منصب پر فائز کر دیا اور اس کا روزینہ مقرر کر دیا۔ اس قسم کے بہت سے واقعات کتب تاریخ میں پائے جاتے ہیں بلکہ آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں جن سے اللہ کی قدرت کاملہ کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لیے مصائب و مشکلات میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ اُن سے مدد طلب کرنا کیا ہوا جو خود آلام و مصائب میں مبتلا ہو جاتے ہیں! جب وہ اپنی مشکلات دُور کرنے پر قادر نہیں تو دوسروں کے لیے مشکل کشا کیسے ہو سکتے ہیں!