کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 172
کے دن زچگی کے آگئے دردِ زہ نے اسے پریشان کیا تو اس نے کہا اس حالت میں میرے لیے جن اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے ان کا انتظام کرو ورنہ میں مر جاؤں گی۔ تاجر گھر سے نکلا کہ دجلہ میں کود جاؤں اور مر جاؤں مگر اللہ کے ڈر سے ایسا نہ کیا، بغداد سے وہ نکلا تو چلتے چلتے خراسان پہنچ گیا وہاں اس نے کچھ مال کمایا۔ گھر متعدد خطوط لکھے، تاکہ اس لونڈی کا پتا چلے کہ کس حال میں ہے مگر کوئی جواب نہ آیا تو اس نے سمجھا کہ وہ فوت ہوگئی ہے۔ پھر تقریباً تیس سال کے بعد بغداد واپسی کا اِرادہ کیا اس کے پاس کافی مال تھا جس کی قیمت بیس ہزار دینار تھی جس قافلے کے ہمراہ وہ سفر کر رہا تھا اس پر ڈاکو حملہ آور ہوئے تو اس کا سارا سامان انھوں نے اپنے قبضے میں لے لیا اور یہ خالی ہاتھ بغداد لوٹا جیسا کہ خالی ہاتھ یہاں سے نکلا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے گھر آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ نہایت خوب صورت محل بنا ہوا ہے۔ اس نے پوچھا یہ کس کا گھر ہے؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ ایک تاجر کے بیٹے کا گھر ہے اور وہ بیٹا امیرالمومنین کو دودھ پلانے والی کا بیٹا ہے، اس کا باپ اور اس گھر کا مالک تاجر تھا، مگر فقر و مسکنت میں پھنس گیا۔ اس بچے کی ماں کو دردِ زہ کی تکلیف ہوئی تو اس کی خدمت کے لیے تاجر کچھ لینے کے لیے گھر سے نکلا مگر واپس نہ آیا تو اس عورت نے پڑوسیوں سے تعاون مانگا۔ چنانچہ انھوں نے ولادت کے مرحلے میں تعاون کیا۔ ادھر ہارون الرشید کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اس نے دودھ پلانے کے لیے دائیہ کو بلوایا تو جو بھی دائیہ آتی بچہ اس کا دودھ نہ پیتا۔ لوگوں نے اس خاتون کی نشان دہی کی کہ اسے بلوا کر بچے کو دودھ پلا کر دیکھو۔ چنانچہ اسے بلایا گیا، جب اس نے دودھ پلانے کے لیے بچے کو اٹھایا اور اپنی چھاتی اس کے مُنھ سے لگائی تو بچہ دودھ پینے لگا۔[1]
[1] بالکل اسی طرح جیسے موسیٰ علیہ السلام کا اپنی والدہ کے دودھ پینے کا قصہ ہے، جنھیں شہر کی دائیاں دودھ پلاتیں تو الله تعالیٰ نے انھیں ان کا دودھ پینے سے روک دیا مگر جب والدہ نے دودھ پلایا تو وہ پینے لگے، جیسا کہ سورۃ طٰہٰ، ۴۰ اور القصص: ۹ تا ۱۳ میں بیان ہوا ہے۔