کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 171
اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہوگئیں اور انھوں نے یقین کر لیا کہ بے شک اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب کے سوا نہیں۔‘‘ یہ قصہ خود حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت سے مفصل بیان ہوا ہے۔[1] بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی بلکہ ان کی توبہ کی تحسین فرمائی اور ان کی توبہ کا تذکرہ قرآن پاک میں فرمایا جو قیامت تک پڑھا پڑھایا جائے گا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس سے براء ت کا قصہ بھی اسی حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ کرب کے بعد اللہ تعالیٰ آسانی پیدا فرما دیتے ہیں۔ غار میں چھپنے والے تین افراد کا قصہ جو پہلے بیان ہو چکا ہے وہ بھی اس کا موید ہے۔ اس نوعیت کے بہت سے واقعات تاریخ کے اوراق میں پائے جاتے ہیں۔ امام ابن ابی الدنیا نے تو اس پر مستقل ایک کتاب ’’الفرج بعد الشدۃ‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ قاضی ابو علی محسن بن ابی القاسم تنوخی نے بھی ’’الفرج بعد الشدۃ‘‘ کے نام سے ایک مبسوط کتاب لکھی ہے۔ بلکہ آئے روز اس قسم کے واقعات و حوادث رونما ہوتے رہتے ہیں۔ علامہ ابن رجب نے بھی ’’نور الاقتباس‘‘ میں اسی نوعیت کے چند واقعات ذکر کیے ہیں۔ اختصار کے پیش نظر ان میں سے ایک قصہ مختصراً نقل کیا جاتا ہے جو انھوں نے قاضی تنوخی کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ہارون الرشید کے زمانے میں بغداد میں ایک تاجر نے پانچ سو دینار میں ایک لونڈی خریدی وہ اس پر اس قدر فریفتہ ہوا کہ اپنا کام کاج چھوڑ دیا، راس المال اسی کی محبت میں خرچ کر دیا۔ وہ لونڈی حاملہ ہوئی، گھر کا سامان فروخت کرنے لگا ادھر لونڈی
[1] صحیح البخاري (۴۴۱۸) صحیح مسلم (۲۷۶۹).