کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 170
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا دریا پر لاٹھی مارو، دریا نے راستہ دے دیا، یہ دریا سے پار نکل گئے۔ فرعونیوں نے تعاقب کیا، اللہ تعالیٰ نے دریا کو رواں دواں ہونے کا حکم دیا تو وہ سب دریا میں ڈوب گئے۔ حضرت یونس علیہ السلام اور ان کی قوم کا قصہ ہو یا حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کا واقعہ ہو، سب اسی کا مظہر ہیں کہ مشکل کے بعد اللہ تعالیٰ آسانیاں فرما دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکی زندگی میں کفار کے ہاتھوں پریشان تھے یہاں تک کہ وہاں سے انھیں ہجرت کرنا پڑی۔ ہجرت کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دن غار میں چھپنا پڑا۔ مدینہ طیبہ پہنچے تو کفارِ مکہ نے پیچھا پھر بھی نہ چھوڑا، بلکہ یہودی بھی کفار کے ہم نوا بن گئے۔ مگر پھر کیا ہوا، یکے بعد دیگرے یہودیوں سے مدینہ منورہ پاک ہو گیا اور مکہ مکرمہ میں آپ فاتحانہ داخل ہوئے۔ بلکہ پورے حجاز میں توحید کا علَم بلند ہوا۔ غزوۂ تبوک میں حضرت کعب بن مالک، ہلال بن اُمیہ اور مرارہ بن ربیع محض اپنی سستی کی بنا پر شریک نہ ہو سکے، وہ چاہتے تو منافقوں کی طرح جھوٹا عذر پیش کر دیتے مگر انھوں نے اس کی بجائے اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا اور سزا کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا کہ وہی ان کے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائیں گے اس دوران میں آپ نے تمام صحابہ کرام کو ان سے بائیکاٹ کا حکم دیا اور بات چیت سے بھی روک دیا۔ چالیس روز بعد یہ بھی حکم دیا کہ اپنی بیویوں سے بھی دُور رہیں۔ ان کی قلبی کیفیت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے: ﴿حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللّٰه إِلَّا إِلَيْهِ ﴾ [التوبۃ: ۱۱۸] ’’یہاں تک کہ جب زمین ان پر تنگ ہو گئی، باوجود اس کے کہ فراخ تھی