کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 166
راہِ ہدایت سے گمراہ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ الغرض جہاد کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو پوری قوت سے دُور کرنا۔ اس میں وہ رکاوٹیں بھی ہیں جو نفس و شیطان اور دیگر حضرات کی طرف سے پیش آئیں اور وہ رکاوٹیں بھی جو کفار اور فجار کی طرف سے پیش آئیں اور انھیں دور کرنے کے لیے بالآخر ان سے جنگ وقتال کرنا پڑے۔ کفار کے ساتھ قتال ہی نہیں، بلکہ اس سے پہلے ان سے مناظرہ و مجادلہ کی ضرورت پیش آتی ہے، تاکہ ان پر حجت قائم کردی جائے۔ یہ مجادلہ بھی جہاد، بلکہ جہادِ کبیر ہے، جیسا کہ سورۃ الفرقان، جو کہ مکی سورتوں میں سے ہے، میں ہے: ﴿فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ﴾ [الفرقان: ۵۲] ’’پس تم کافروں کا کہا مت مانو اور اس کے ساتھ ان سے جہاد کرو بہت بڑا جہاد۔‘‘ یہاں ’’بہ‘‘ سے قرآن مجید مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے۔ (ابن کثیر: ۳/۴۲۹) یعنی قرآن مجید سے توحید کے اثبات اور کفر و شرک کے ابطال کے دلائل سے ان سے بڑا جہاد کرو۔ اسی کو جہاد باللسان کہا گیا ہے۔ جہاد باللسان کے علاوہ جہاد بالنفس، جہاد بالقلب، جہاد بالمال، جہاد بالید سب جہاد کی ہی قسمیں ہیں۔ جہاد بالنفس بھی صبر کے بغیر ممکن نہیں کیوں کہ مامورات اور منہیات کی پابندی صبر کے بغیر ممکن نہیں جیسے مصائب و آلام پر صبر کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ حضرت سعید رحمہ اللہ بن جبیر نے فرمایا ہے کہ صبر کی دو قسمیں ہیں: ایک محرمات سے صبر اور مامورات پر صبر اور دوسرا مصائب پر صبر کرنا۔ پہلی قسم سب سے افضل ہے۔ یہی بات حضرت میمون بن مہران نے بھی کہی ہے۔ اسی بنا پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا