کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 164
﴿ فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ﴾ [القصص: ۵۰] ’’پھر اگر وہ تیری بات قبول نہ کریں تو جان لے کہ وہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کر رہے ہیں۔‘‘ یہ خواہش پرستی جس سے بھی ملتی ہے اس میں فساد پیدا کر دیتی ہے۔ علم کے ساتھ مل جائے تو عالم کو بدعت و ضلالت کی طرف لے جاتی ہے اور ایسا شخص ’’اہل الاہواء‘‘ (خواہش پرستوں) میں شمار ہونے لگتا ہے۔ اگر یہ زُہد سے مل جائے تو زاہد کو ریا اور نام وَری میں پھنسا دیتی ہے۔ اگر یہ حکم سے مل جائے تو حاکم کو ظلم و زیادتی پر لے آتی ہے، اگر تقسیم سے مل جائے تو عدل کی بجائے ظلم و نااِنصافی پر لے آتی ہے، اگر ولایت اور عزل سے مل جائے تو متعلقہ افسر کو اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں سے خیانت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ وہ کسی کو معزول کرتا ہے یا کوئی ذمہ داری سونپتا ہے تو اہل سمجھ کر نہیں، بلکہ خواہش پرستی سے کرتا ہے۔ اور اگر عبادت سے مل جائے تو اسے قربت و اطاعت نہیں رہنے دیتی ہے۔[1] انسان کو اسی خواہش پرستی سے روکنا بہت بڑا جہاد ہے۔ یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَجَاهِدُوا فِي اللّٰه حَقَّ جِهَادِهِ ﴾ [الحج: ۷۸] ’’اور اللہ کے بارے میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔‘‘ امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں: ’’ھُوَ جِھَادُ النَّفْسِ وَالْھَوٰی‘‘[2]
[1] روضۃ المحبین (ص: ۵۲۶) خواہش پرستی کی مذمت کے لیے مزید ملاحظہ ہو: روضۃ المحبین لابن قیم، ذم الہوی لابن الجوزي، إغاثۃ اللفہان، إحیاء العلوم. [2] ذم الہوی.