کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 162
انھوں نے دعا کی کہ ہم پر پورا پورا صبر انڈیل دے، عجیب حسن ترتیب ہے؛ پہلے ثباتِ قلب کی، پھر ثباتِ قدم کی پھر کفار پر فتح ونصرت کی دعا ہے۔ گویا ثابت قلبی کا نتیجہ ثابت قدمی ہے اور ثابت قدمی کا نتیجہ فتح و نصرت ہے۔ صبر و اِستقامت کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَیُّھَا النَّاسُ! لَا تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ وَسَلُوْا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ، فَإِذَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوْا، وَاعْلَمُوْا أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیوْفِ )) [1] ’’اے لوگو! دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت کا سوال کرتے رہو اور جب دشمن سے مقابلہ ہو جائے تو صبر کرو اور خوب جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔‘‘ یہ صبر تو کفار کے مقابلے میں میدان جہاد میں ہے۔ لیکن ایک جہاد انسان کے باطنی دشمن سے بھی ہے اور وہ ہے ’’جہاد بالنفس‘‘ یعنی اپنے نفس سے اور اپنی خواہشات سے جہاد کرنا۔ اور یہ جہاد کفار کے ساتھ جہاد کرنے سے بھی مشکل ہے۔ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے بسند حسن مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ فِيْ اللّٰہِ )) [2] ’’مجاہد وہ ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے نفس سے جہاد کرتا ہے۔‘‘ ایک روایت میں ہے: (( اَلْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہَ فِيْ طَاعَۃِ اللّٰہِ )) [3] ’’مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرتا ہے۔‘‘
[1] صحیح البخاري (۲۹۶۶). [2] مسند أحمد (۶/ ۲۰) زوائد ابن حبان (۱۶۲۴) وغیرہ. [3] زوائد ابن حبان (۲۵) حاکم (۱/ ۱۰، ۱۱) وغیرہ.