کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 161
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللّٰه كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (45) وَأَطِيعُوا اللّٰه وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللّٰه مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾[الأنفال: ۴۵، ۴۶] ’’اے ایمان والو! جب تم کسی گروہ کے مدمقابل ہو تو جمے رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو آپس میں مت جھگڑو، ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ صبر کرنے والوں کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللّٰه لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ [آل عمران: ۲۰۰] ’’اے ایمان والو! صبر کرو اور مقابلے میں ثابت قدم رہو اور مورچوں میں ڈٹے رہو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘ جب جالوت کے مقابلے میں جناب طالوت نکلے تو انھوں نے اللہ سے دعا کی: ﴿ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴾ [البقرۃ: ۲۵۰] ’’اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ان کافروں کے خلاف ہماری مدد فرما۔‘‘ ’’افرغ‘‘ امر کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں: برتن انڈیل کر خالی کرنا۔ یعنی