کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 159
اسی طرح عبدالعزیز بن ابی رواد کے بارے میں ہے کہ ان کی بینائی ختم ہو گئی ایک روز بیٹے نے یہ محسوس کیا تو اس نے کہا: ابا حضور! آپ کی بینائی چلی گئی؟ تو انھوں نے فرمایا: ہاں بیٹا اللہ تعالیٰ کی یہی رضا ہے، تیرا باپ بیس سال سے نابینا ہے۔[1] امام احمد بیمار پڑ گئے، تکلیف کی وجہ سے زبان سے کراہنے اور ہائے کے الفاظ نکل جاتے تھے مگر جب انھیں معلوم ہوا کہ امام طاوس نے فرمایا ہے کہ فرشتے مریض کے کراہنے کی آواز بھی لکھتے ہیں تو اس کے بعد عمر بھر ہائے ہائے نہیں کی۔[2] امام طاوس کے علاوہ یہی قول امام مجاہد رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے۔[3] مولانا سید ابوبکر غزنوی ہمارے اسلاف کی یادگار تھے، لندن میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے، وہاں سڑک پار کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئے اور بالآخر اسی تکلیف میں اپنے مولیٰ کے ہاں پہنچ گئے۔ ان کی بیمارپرسی کرنے والوں میں مرحوم شیخ اشرف بھی تھے۔ انھوں نے بتلایا کہ جب میں عیادت کے لیے جاتا تو تکلیف سے ان کی زبان سے بس ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ نکلتا تھا، ہائے ہائے نہیں کہتے تھے۔ یہ حضرات صاحبِ عزیمت تھے جو صبر کے بہترین نمونے چھوڑ گئے۔ اللّٰہم اجعلنا منہم۔
[1] السیر. [2] ابن کثیر. [3] ابن أبي شیبۃ.