کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 157
اور مال دے اس کی محبت کے باوجود قرابت والوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں۔ اور نماز قائم کرے اور زکاۃ دے اور جو اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں جب عہد کریں اور خصوصاً جو تنگ دستی اور تکلیف (بیماری وغیرہ) میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں، یہی لوگ ہیں جنھوں نے سچ کہا اور یہی بچنے والے ہیں۔‘‘ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ جب کسی کو نعمت دے کر چھین لیتے ہیں اور اس کے عوض اسے صبر کی نعمت عطا فرمادیتے ہیں تو یہ نعمتِ صبر اس کے لیے اس نعمت سے بہتر ہے۔ پھر اس کی تائید میں وہ یہ آیت تلاوت فرماتے: ﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾ [الزمر: ۱۰] ’’صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔‘‘ بعض اللہ والوں نے تو ایک کاغذ پر یہ آیت لکھ رکھی تھی اور اسے وہ دیکھتے رہتے تھے: ﴿وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا﴾ [الطور: ۴۸] ’’اور اپنے رب کا حکم آنے تک صبر کر، بے شک تُو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ﴿فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًا ﴾ [المعارج: ۵]، ﴿فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ ﴾ [الحجر: ۸۵]، ﴿وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا ﴾ [المزمل: ۱۰] کا حکم فرمایا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: صبر جمیل یہ ہے کہ اس کے ساتھ شکوہ نہ ہو، ’’الصفح الجمیل‘‘ یہ ہے کہ اس کے ساتھ عتاب نہ ہو اور ’’ہجر جمیل‘‘ یہ ہے کہ اس کے ساتھ تکلیف لڑائی جھگڑا نہ ہو۔[1]
[1] مدارج السالکین (۲/ ۱۶۷).