کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 154
’’جب کسی بندے کا بیٹا فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں: میرے بندے کے بیٹے کو لے آئے ہو؟ تو وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم اس کے دل کا پھل کاٹ لائے ہو؟ تو وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: پھر میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے کہتے ہیں: وہ آپ کی تعریف کر رہا تھا اور ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ کہہ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میرے بندے کا گھر جنت میں بنا دو اور اس کا نام ’’بیت الحمد‘‘ رکھ دو۔‘‘ یہ اور اسی موضوع کی دیگر احادیث اور قرآن مجید کی متعدد آیات سے صبر کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ ناگوار اور ناپسندیدہ امور پر صبر کتنی بڑی خیر و برکات کا باعث ہے۔ صبر کی اقسام: صبر کی تین قسمیں ہیں: 1 صبر علی طاعۃ اللّٰہ، یعنی اللہ کے مامورات کی پابندی 2 صبر عن معصیۃ اللّٰہ، یعنی منہیات کی پابندی اور ان سے صبر 3 صبر علی الأقدار المؤلمۃ، یعنی تکالیف اور مصائب پر صبر۔ زیرِ بحث روایت میں بہ ظاہر صبر کی یہی تیسری قسم مراد ہے، مگر حقیقتاً پہلی دونوں اقسام کو بھی یہ شامل ہے کیوں کہ مامورات کی پابندی اور منہیات سے اجتناب بھی عموماً طبائع پر ناگوار گزرتا ہے اور جو خوش نصیب صبر کی ان تینوں انواع کی پاس داری کرتا ہے، وہ بلاشبہ بہت بڑے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ اَلصَّبْرُ مِنَ الْإِیْمَانِ بِمَنْزِلَۃِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ، أَلَا وَ إِنَّہُ لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَّا صَبْرَ لَہٗ‘‘[1]
[1] نھج البلاغۃ مع ابن أبي الحدید (۴/ ۲۷۹) وغیرہ.