کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 15
مقام پر کر دی جائے گی اور اس کی سند بھی حسن ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت متعدد طرق سے مروی ہے، مگر ان میں کوئی بھی قابلِ استناد نہیں ہے۔
حدیث کی اہمیت:
یہ حدیث دین کے چند بنیادی قواعد پر مشتمل ہے۔ حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ نے تو فرمایا ہے کہ میں نے اس حدیث پر غور و فکر کیا تو مجھے اس نے اس قدر دہشت زدہ کر دیا کہ خوف ہوا کہیں عقل ہی زائل نہ ہوجائے۔ اس حدیث سے بے خبری اور اس کے معانی و مطالب سے بے سمجھی نہایت افسوس کا باعث ہے۔[1]
علامہ ابن جوزی کے معاصر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی یہی حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’فَیَنْبَغِيْ لِکُلِّ مُؤْمِنٍ أَنْ یَّجْعَلَ ھٰذَا الْحَدِیْثَ مِرْآۃً لِقَلْبِہِ وَشِعَارِہٗ وَ دِثَارِہٗ وَحَدِیْْثِہٗ، فَیَعْمَلُ بِہِ فِيْ جَمِیْعِ حَرَکَاتِہِ وَسَکَنَاتِہٖ حَتّٰی یَسْلِمَ فيْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَیَجِدَ الْعِزَّۃَ فِیْھِمَا بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ‘‘[2]
’’یعنی ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اس حدیث کو اپنے دل، اپنے اوپر اور نیچے کے لباس اور اپنی بات کے لیے آئینہ بنا لے، اپنی تمام حرکات و سکنات میں اس پر عمل کرے، تاکہ وہ دنیا و آخرت میں بچا رہے اور دونوں جہانوں میں الله عزوجل کی رحمت سے عزت پائے۔‘‘
علامہ ابن رجب نے ’’الأربعین للنووي‘‘ کی شرح میں اس حدیث کی بڑی مفصل تشریح کی ہے اور ’’نور الاقتباس‘‘ کے نام سے مستقل طور پر بھی اس کی
[1] بحوالہ جامع العلوم۔
[2] فتوح الغیب المقالۃ: ۴۲ (ص: ۱۰۳).