کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 141
میں اس سے بری ہوں جو تم شریک بناتے ہو اُس کے سوا، سو تم میرے خلاف تدبیر کر لو، پھر مجھے مہلت نہ دو، بے شک میں نے اللہ پر بھروسا کیا ہے جو میرا رب ہے اور تمھارا رب ہے۔‘‘ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے فرمایا تھا: ﴿يَا قَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللّٰه فَعَلَى اللّٰه تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُونِ﴾ [یونس: ۷۱] ’’اے میری قوم! اگر میرا کھڑا ہونا اور اللہ کی آیات کے ساتھ میرا نصیحت کرنا تم پر بھاری گزرا ہے تو میں نے اللہ ہی پر بھروسا کیا ہے، سو تم اپنا معاملہ اپنے شرکاء کے ساتھ مل کر پکا کر لو، پھر تمھارا معاملہ تم پر کسی طرح مخفی نہ رہے، پھر میرے ساتھ (جو تم چاہتے ہو) کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو۔‘‘ یعنی تم سے اور اللہ کے سوا تمھارے معبودوں سے میرے خلاف جو ہو سکتا ہے، علانیہ کرو۔ مجھے تمھاری مخالفت کی کوئی پروا نہیں میرے لیے میرا اللہ کافی ہے اسی پر میرا بھروسا ہے۔ جس کااعتقاد اپنے اللہ پر ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان کا مالک اللہ ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کی پروا نہیں کرتا اگرچہ ساری دنیا اس کی مخالفت پر اُتر آئے۔ حضرات انبیائے کرام کی تاریخ اسی فکر کی آئینہ دار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ الفاظ بھی منقول ہیں: (( اَللّٰہُمَّ لَامَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَ لَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَ لَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ )) [1]
[1] صحیح البخاري (۶۶۱۵) مسلم وغیرہ.